میں ذاتی طور پر شائستہ زبان اور لحاظ و مروت کا مکمل طور پر قائل ہوں۔ لیکن آج ایک بات آپ کے گوش گزار ضرور کرانا چاہوں گا۔ لحاظ و مروت ہے کیا چیز؟
دیکھیے میرے نزدیک یہ شائستہ زبانی اور شگفتہ مزاجی ایک خاص مقام پر پہنچ کر منافقت بن جاتی ہے۔ میرا تعلق کاروباری حلقے سے ہے۔ میں جانتا ہوں یہاں لاکھوں اور کروڑوں روپے کا ادھار ایک وقت میں چل رہا ہوتا ہے۔ اور اس درمیان ایسے بھی سیکڑوں لوگ دیکھے ہیں جنہوں نے اخلاق، لحاظ، شائستگی اور زبان کی شیرینی سے پورے پورے خاندان تباہ کیے ہیں۔ کروڑوں روپے کے مالک کو یہ اخلاق والی منافقت سڑک پر لائی ہے۔ اچھے اچھے کاروباری لوگوں کو ہوٹل میں ویٹر کی نوکری کرتے دیکھا ہے۔ اور یہ کوئی بعید از قیاس بات نہیں ہے۔ تجارت پیشہ لوگ ان حقیقتوں سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں کہ کیسے کوئی کسی کے اعتماد کو چوٹ پہنچا کر آخر میں ڈیفالٹر ہو جاتا ہے۔ لیکن اس ڈیفالٹر کے ماتھے پر نہ شکن آتی ہے، نہ لہجے میں تلخی آتی ہے اور نہ اخلاقیات کا کوئی پہلو مجروح ہوتا ہے۔ لیکن جس نے اس سے معاملہ کیا ہوتا وہ بے چارہ زندہ در گور ہوجاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ لوگوں کی ہمدردیاں پھر بھی اس ڈیفالٹر کے ساتھ ہوتی ہیں۔
جب یہی معاملہ ہم مستشرقین یا متجددین کی طرف سے دیکھتے ہیں اور انہیں عمدہ اخلاق اور بہترین لہجے میں بات کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کی جانب ایک کشش محسوس ہوتی ہے جسے عام تعلیم یافتہ طبقہ جلدی قبول کرتا ہے۔ حالانکہ یہ طبقہ خود نہ تو دین کے بنیادی علوم سے واقف ہوتا ہے نہ اس کے ارتقائی پس منظر اور تاریخ سے اسے کوئی شناسائی ہوتی ہے۔
روایتی علمائے کرام کا ویک پوائنٹ یہ رہا کہ وہ علمی حلقوں میں تو بہت آگے رہے لیکن ایک معمولی دینی استعداد کے مسلمان تک دینی علوم کے "مزاج" کو پہنچانے میں کافی کمزور رہے۔ پھر وہ اُس زبان یا اس قلم کو استعمال میں لانے کی طرف بھی متوجہ نہیں ہوئے جس سے مسئلہ حل ہوسکتا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ جدید علوم نے انسان میں سے روحانیت اور یکسوئی کی صفت کو تباہ و برباد کر ڈالا ہے۔ اور جو مسلمان اس چیز سے متاثر ہوئے انکا شکار متجددین نے بہت اچھی طرح کرلیا۔ یوں یہ بحث و مباحثہ اور مناظرہ کا ایک نیا در کُھل گیا۔
اب میں بذات خود ایسے مقام پر کھڑا ہوں جہاں نہ میں یہ فیصلہ دے سکتا ہوں کہ ان میں سے کون مکمل طور پر صحیح ہے۔ اور نہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ کون مکمل طور پر غلط ہے۔
لیکن ایک بات جو چشم تصور سے دیکھتا ہوں وہ یہ کہ آج کے متجددین کا دین کے حوالے سے جو رویہ ہے اس کے نتائج انتہائی خطرناک ہیں۔ وہاں دل کا سکون نہیں ہے صرف دماغی انتشار کی تسکین کی خاطر دین کے تمام اصول و فروع ایک ایک کرکے اگر علمی طور پر نہیں تو نفسیاتی طور پرکھوکھلے کیے جارہے ہیں۔ آج وہ عام لوگ جو دین کے مزاج سے معمولی واقفیت بھی نہیں رکھتے، وہ دین کے ان اصولوں پر طعن دراز کرتے نظر آتے ہیں جن پر آئمہ مجتھدین، محدثین اور فقہاء نے تیرہ سو سال میں کبھی کوئی کلام نہیں کیا۔ لیکن اخلاقیات اپنے عروج پر ہے۔ زبان کی شائستگی چوٹی پر ہے۔
میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اعلی اخلاق کا یہ ہتھیار صرف ایمان کو کمزور کرنے کی خاطر بڑی مہارت سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور آخر میں ہاتھ اونچے کرکے صرف یہ نعرہ لگایا جاتا ہے کہ "علمی اختلاف ہے میاں!!!!"
فیس بک پوسٹ
دیکھیے میرے نزدیک یہ شائستہ زبانی اور شگفتہ مزاجی ایک خاص مقام پر پہنچ کر منافقت بن جاتی ہے۔ میرا تعلق کاروباری حلقے سے ہے۔ میں جانتا ہوں یہاں لاکھوں اور کروڑوں روپے کا ادھار ایک وقت میں چل رہا ہوتا ہے۔ اور اس درمیان ایسے بھی سیکڑوں لوگ دیکھے ہیں جنہوں نے اخلاق، لحاظ، شائستگی اور زبان کی شیرینی سے پورے پورے خاندان تباہ کیے ہیں۔ کروڑوں روپے کے مالک کو یہ اخلاق والی منافقت سڑک پر لائی ہے۔ اچھے اچھے کاروباری لوگوں کو ہوٹل میں ویٹر کی نوکری کرتے دیکھا ہے۔ اور یہ کوئی بعید از قیاس بات نہیں ہے۔ تجارت پیشہ لوگ ان حقیقتوں سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں کہ کیسے کوئی کسی کے اعتماد کو چوٹ پہنچا کر آخر میں ڈیفالٹر ہو جاتا ہے۔ لیکن اس ڈیفالٹر کے ماتھے پر نہ شکن آتی ہے، نہ لہجے میں تلخی آتی ہے اور نہ اخلاقیات کا کوئی پہلو مجروح ہوتا ہے۔ لیکن جس نے اس سے معاملہ کیا ہوتا وہ بے چارہ زندہ در گور ہوجاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ لوگوں کی ہمدردیاں پھر بھی اس ڈیفالٹر کے ساتھ ہوتی ہیں۔
جب یہی معاملہ ہم مستشرقین یا متجددین کی طرف سے دیکھتے ہیں اور انہیں عمدہ اخلاق اور بہترین لہجے میں بات کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کی جانب ایک کشش محسوس ہوتی ہے جسے عام تعلیم یافتہ طبقہ جلدی قبول کرتا ہے۔ حالانکہ یہ طبقہ خود نہ تو دین کے بنیادی علوم سے واقف ہوتا ہے نہ اس کے ارتقائی پس منظر اور تاریخ سے اسے کوئی شناسائی ہوتی ہے۔
روایتی علمائے کرام کا ویک پوائنٹ یہ رہا کہ وہ علمی حلقوں میں تو بہت آگے رہے لیکن ایک معمولی دینی استعداد کے مسلمان تک دینی علوم کے "مزاج" کو پہنچانے میں کافی کمزور رہے۔ پھر وہ اُس زبان یا اس قلم کو استعمال میں لانے کی طرف بھی متوجہ نہیں ہوئے جس سے مسئلہ حل ہوسکتا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ جدید علوم نے انسان میں سے روحانیت اور یکسوئی کی صفت کو تباہ و برباد کر ڈالا ہے۔ اور جو مسلمان اس چیز سے متاثر ہوئے انکا شکار متجددین نے بہت اچھی طرح کرلیا۔ یوں یہ بحث و مباحثہ اور مناظرہ کا ایک نیا در کُھل گیا۔
اب میں بذات خود ایسے مقام پر کھڑا ہوں جہاں نہ میں یہ فیصلہ دے سکتا ہوں کہ ان میں سے کون مکمل طور پر صحیح ہے۔ اور نہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ کون مکمل طور پر غلط ہے۔
لیکن ایک بات جو چشم تصور سے دیکھتا ہوں وہ یہ کہ آج کے متجددین کا دین کے حوالے سے جو رویہ ہے اس کے نتائج انتہائی خطرناک ہیں۔ وہاں دل کا سکون نہیں ہے صرف دماغی انتشار کی تسکین کی خاطر دین کے تمام اصول و فروع ایک ایک کرکے اگر علمی طور پر نہیں تو نفسیاتی طور پرکھوکھلے کیے جارہے ہیں۔ آج وہ عام لوگ جو دین کے مزاج سے معمولی واقفیت بھی نہیں رکھتے، وہ دین کے ان اصولوں پر طعن دراز کرتے نظر آتے ہیں جن پر آئمہ مجتھدین، محدثین اور فقہاء نے تیرہ سو سال میں کبھی کوئی کلام نہیں کیا۔ لیکن اخلاقیات اپنے عروج پر ہے۔ زبان کی شائستگی چوٹی پر ہے۔
میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اعلی اخلاق کا یہ ہتھیار صرف ایمان کو کمزور کرنے کی خاطر بڑی مہارت سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور آخر میں ہاتھ اونچے کرکے صرف یہ نعرہ لگایا جاتا ہے کہ "علمی اختلاف ہے میاں!!!!"
فیس بک پوسٹ